Class Matric Part 2 NotesComputer class 10th

Matric Part 2 Class 10th Islamiat Unit 7 Urdu Medium

Matric Part 2 Class 10th Islamiat Unit 7 Urdu Medium on newsongoogle.com by Bilal Articles

موضوعاتی مطالعه

    باب ہفتم

عائلی زندگی کی اہمیت

سوال 1 : خاندانی نظام کی اہمیت پر نوٹ لکھیے۔ یا عاملی زندگی کا مفہوم اور اس کی اہمیت بیان کریں۔

جواب:

عائلی زندگی کا معنی و مفہوم:

عائلی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جس میں ایک انسان چند افراد یعنی بیوی بچوں کی معاشی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ عائل عربی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ عائلی زندگی سے مراد گھر یلو یا خاندانی زندگی ہے انگریزی میں اسے ” فیملی لائف ” کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے موزوں لفظ خاندان، کنبہ یا گھرانا ہے۔ عائل کی جمع عیال آتی ہے۔ جو پورے خاندان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جس میں والدین، اولاد اور دیگر عزیز و اقارب بھی شامل ہیں۔ اس لیے عائلی زندگی کا مفہوم گھر یلو یا خاندانی زندگی ہے۔

-1 عائلی زندگی کی اہمیت:

انسان پیدائش سے لے کر موت تک ساری زندگی اپنے خاندان میں گزارتا ہے۔ خاندان کے افراد مختلف رشتوں کی بنا پر ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ انسانی تہذیب اور تمدن کی ابتدا بھی خاندانی نظام سے ہوئی گویا خاندان معاشرے کا بنیادی جزو اور اکائی ہے۔ معاشرہ، تمدن اور خاندان ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ اسلامی طرز زندگی پر گامزن ہو گا تو خاندان پر اس کے بہت اچھے اثرات پڑیں گے اسلام نے زوجین (شوہر اور بیوی) کو خاندان کے دو اہم ستون قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنْ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقُكُمْ

( سورة الحجرات : 13)

” بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہاری پہچان کے لیے تمہارے خاندان اور قبیلے بنائے۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پر ہیز گار ہے “۔

2- تسکین فطرت

ارشاد باری تعالی ہے: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا (سورۃ الاعراف : 189)

وہی اللہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تا کہ وہ اس سے سکون حاصل کرے “۔

3- اخلاقی تحفظ:

نکاح ایک جوڑے کے درمیان عائلی زندگی کی جائز بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں پاکیزہ تعلقات وجود میں آتے ہیں۔ قرآن نے رشتہ ازدواج کو ” احصان ” کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے ” قلعہ بند ہو کر محفوظ ہو جانا ” شادی کے بعد زوجین غیر اخلاقی حملوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

4- رنج و راحت کا ساتھ :

شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے شریک رنج و راحت، بے لوث اور غمگسار ہوتے ہیں۔ مشکلات و مسائل کے حل میں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ اس زندگی کا لطف اس وقت حد کمال کو پہنچ جاتا ہے جب گھر کے آنگن میں پھولوں جیسے بچے آ جاتے ہیں جو والدین کے آپس کے تعلق کو اور مضبوط کرتے ہیں ہر دو طرف سے محبت و احترام باہمی کا زمزم موجزن ہوتا ہے اور گھر واقعی ایک جنت نظر آتا ہے۔

-5 عائلی زندگی کے مقاصد :

پاکیزہ عائلی زندگی کا واحد راستہ نکاح ہے۔ اسلام میں عائلی زندگی کے درج ذیل مقاصد ہیں :

i نسل انسانی کی بقاء

ii افزائش نسل

iii راحت و سکون

iv اولاد کی تعلیم و تربیت

V حقوق و فرائض کی ادائیگی

6- عزت و ناموس کی حفاظت:

جسے استطاعت ہو وہ ضرور نکاح کرے اس سے عزت و ناموس کی خوب حفاظت ہوتی ہے “۔

7- شفقت اور رحمت کا باہمی تعلق:

اللہ تعالی نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو محبت، شفقت اور رحمت کا تعلق قرار دیا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے : 

وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مُوَدَّةً وَرَحْمَةً . (سورة الروم : 21)

اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے در میان محبت اور رحمت پیدا کی “۔

8- زوجین کا باہمی تعلق:

مرد اور عورت کا تعلق انسانی تمدن کی بنیاد ہے گھر اور اس میں بسنے والے افراد جس قدر بہتر ہوں گے اس سے بہتر تمدن جنم لے گا۔

9- معاشرتی ضرورت:

معاشرہ کی بنیادی اینٹ خاندان ہے اور معاشرہ کی مثال مکان کی سی ہے۔ مکان وہی مضبوط ہو گا جس کی ایک ایک دیوار اور ایک ایک اینٹ پختہ اور پکی ہو۔ وہ مکان جس کی اینٹیں بوسیدہ، شہتیر کرم خوردہ اور مسالہ ناقص ہو وہ آندھی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

10 دین و ایمان کی حفاظت:

نکاح دین و ایمان کا محافظ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے : “عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے

i حسب و نسب

ii. حسن و جمال

iii مال

iv دینداری

لیکن تم دیندار عورت کو حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ صالح اور دین دار بیوی دنیا کی افضل ترین متاع ہے “۔

11- تحفظ اخلاق

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے : ” نکاح کرو کیونکہ اس سے نگاہ جھک جاتی ہے “۔

12- تربیت اولاد

اولاد اپنی پرورش کے لئے والدین کی محتاج ہوتی ہے اس لیے ان کی اخلاقی روحانی اور جسمانی پرورش والدین کا فرض ہے۔ گھر ایک چھوٹی سی سلطنت ہے۔ گھر کے باہر کے معاملات کا ذمہ دار مرد ہے اور اندرونی معاملات کی ذمہ دار عورت ہے۔ گھر کے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوتے رہیں تو بچوں کو بہترین تربیت میسر آتی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (سورة التحريم : 6)

” اے اہل ایمان ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ سے بچاؤ “۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے :

” جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی ، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، وہ جنت میں جائے گا”۔

13- احساس ذمہ داری

جب آدمی تنہا ہوتا ہے تو اس کی سوچ صرف اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔ نکاح کے بعد اس پر بیوی کے خرچ کا بوجھ ، اولاد کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری آن پڑتی ہے۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے اس میں رزق کے حصول کے لیے جائز و حلال ذرائع تلاش کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ خوب جی لگا کر محنت کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس کی کوشش میں برکت ڈال دیتا ہے اور اپنے فضل سے اسے غنی کر دیتا ہے۔

سوال 2: زوجین کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟

جواب:

 حقوق زوجین

حقوق زوجین سے مراد وہ حقوق و فرائض ہیں جو شوہر اور بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے لیے عائد ہوتے ہیں۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے اور گھر کے سکون اور خوشحالی کا انحصار میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات پر ہے۔ اللہ تعالی نے زوجین ( شوہر اور بیوی) کے حقوق مقرر فرما دیے ہیں 

جو مندرجہ ذیل ہیں :

-1 حسن سلوک

بیوی کے حقوق (شوہر کے فرائض)

بیوی کا پہلا حق یہ ہے کہ شوہر اس سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو”۔

ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ” تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں “۔

شوہر پر یہ فرض ہے کہ جو چیز خود کھائے وہ اپنی بیوی کو بھی کھلاے اور جو لباس خود پہنے اسی حیثیت کا اپنی بیوی کو بھی پہنائے۔ نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے اور نہ اسے گالی دے۔ اپنی بیویوں میں کوئی برائی دیکھ کر ان سے نفرت نہ کرنے لگ جاؤ۔ اگر تم غور کرو گے تو تمہیں ان میں کوئی اچھائی بھی ضرور نظر آجائے گی۔

2- مہر کی ادائیگی:

“مہر”عورت کا شرعی حق ہے جو حقوق زوجیت کے عوض مرد کے ذمہ ہے۔

ارشاد خداوندی ہے:

1 بیویوں کا حق مہر ادا کر نا تم پر فرض ہے۔

2 اور عورتوں کا حق مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو۔

3- نان و نفقه :

خوراک، لباس اور رہائش بیوی کا حق ہے۔

” مالدار پر اس کی طاقت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق نفقہ لازم ہے “ ( قرآن حکیم )

4- عدل و مساوات

ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں عدل و مساوات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا نکاح عدل سے مشروط ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةٌ ( سورة النساء : (3)

“اگر تم کو ڈر ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے تو ایک پر ہی اکتفا کرو (یعنی ایک کو ہی کافی سمجھو )”

-5 تحمل و در گزر :

اگر آپ کو عورت کی کوئی عادت ناپسند ہو ، وہ خوبصورت اور زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو تو اس میں پائی جانے والی خوبیوں پر نگاہ رکھو جیسا کہ سورۃ النساء میں ہے: “ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالی نے اس میں بھلائی رکھ دی ہو ” عورت کو ہمیشہ نرمی، پیار اور حکمت سے سمجھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

“عورتوں سے حسن سلوک کرو، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ، اس کو سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی”۔

6- ظلم سے اجتناب:

شوہر اپنی بیوی پر ظلم نہ کرے مثلاً کی بیویوں کی صورت میں ایک کی طرف زیادہ رغبت اور جھکاؤ دوسری کو بالکل معلق چھوڑ دینا ظلم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: تمہارے لیے جائز نہیں کہ ایک بیوی کی طرف گلی میلان ہو اور دوسری کو معلق کر دو۔

7- اخلاقی تربیت:

شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی اور دوسرے اہل خانہ کی اخلاقی اور دینی تربیت کا اہتمام کرے۔ قرآن پاک میں ہے :

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا “ ( سورة التحريم : 6) ” اے اہل ایمان ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ سے بچاؤ “۔ ” اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ہماری بیویوں سے اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پر ہیز گاروں کا امام بنا”۔

-8 میراث

( سورة الفرقان : 74)

بیوی کو اپنے خاوند کی وفات پر اس کے چھوڑے ہوئے ترکہ سے حصہ ملتا ہے۔ اگر اولاد ہو تو آٹھواں (8/1) اور نہ چو تھا(4/1) حصہ ،

-9 راز داری

زوجین کے آپس میں کئی راز ہوتے ہیں جن کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا افشا کر ناہد اخلاقی ہے۔ قرآن پاک میں ہے 

عور تیں تمہار الباس اور تم ان کا لباس ہو”۔

مطلب یہ کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے راز دان اور پردہ دار ہوتے ہیں جیسا کہ لباس پردہ پوشی کرتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد ہے:

” جس نے اپنی بیوی کے راز کسی کے سامنے بیان کیے وہ جہنمی ہے “۔

10- خلع کا حق

اسلام نے جس طرح مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اسی طرح عورت بھی خلع کا حق رکھتی ہے۔ اگر شوہر بیوی کے معاشی اور ازدواجی حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو تو ناگزیر حالات میں عورت کچھ معاوضہ دے کر یا حق مہر معاف کر کے ضلع ( چھٹکارا) لے سکتی ہے۔ یہ حق اسلام سے پہلے عورت کو حاصل نہیں تھا۔

                                                  بیوی کے فرائض (شوہر کے حقوق)

اسلام نے شوہر اور بیوی کے علیحدہ علیحدہ حقوق اور ذمہ داریاں مقرر کر دی ہیں اور ان کی قیامت کے دن جواب طلبی ہوگی۔

-1 مال اور آبرو کی حفاظت :

سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے :

فالصلِحْتُ قُنِتُتٌ حَفِظُتٌ لِلْغَيْبِ ( سورة النساء : 34)

نیک عورتیں فرما بردار اور شوہر کی عدم موجودگی میں (اس کے گھر کی ) محافظ ہوتی ہیں۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے:

خاوند کا اپنی بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے بستر کو کسی دوسرے شخص سے پامال نہ ہونے دے”۔

2 اطاعت و فرمانبرداری

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

” نیک بیویاں وہ ہیں جو اپنے شوہر کی فرمانبردار ہیں “۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ :

جو بیوی اس تگ و دو میں رہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت یقینی طور پر جنت کی مستحق ہے “۔

3- تربیت اولاد

ماں کی گود اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

عورت اپنے شوہر کی اولاد کی نگہبان ہے اور وہ اس کے لیے جواب دہ ہے “۔

4- قناعت و شکر گزاری

عورت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاوند کی کمائی ہوئی محنت کی روزی کو فضول خرچ نہ کرے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد ہے :

“اے عور تو ! صدقہ زیادہ کیا کرو میں نے معراج کی رات تمہیں زیادہ تعداد میں دوزخ میں پایا ہے “۔

خواتین کے دریافت کرنے پر آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے جواب دیا کہ ” تم شکر کم کرتی ہو اور ناشکری زیادہ کرتی ہو”۔ (بخاری شریف)

5- اظہار تشکر:

نبی مٹی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد ہے :

تم پر جن کا احسان ہے ان کی ناشکری سے بچو۔ تم میں سے ایک بن بیاہی ماں باپ کے گھر بیٹھی رہتی ہے پھر خدا تم کو شوہر اور اولاد سے نوازتا ہے اور بیوی شوہر سے خفا ہو کر کہتی ہے کہ میں نے تمہاری طرف سے سکھ نہیں دیکھا”۔

لہذا عورت کو شوہر کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔

6- آرائش و زیبائش:

نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

کہ اچھی عورت وہ ہے کہ جب اس کا شوہر اسے دیکھے تو اسے مسرت ہو ، وہ اسے حکم دے تو اطاعت کرے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور اپنی (آبرو کی حفاظت کرے”۔

7- شوہر کی خوشنودی

بیوی کو شوہر کا مزاج شناس ہونا چاہیے اور اس کی ناراضی سے بچنا چاہیے۔

نبی  کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد :

تین آدمیوں کی نماز قبول ہوتی ہے نہ قربانی ، ان میں سے ایک وہ عورت ہے جس سے اس کا شوہر ناخوش ہو”۔

8 شوہر کے اقربا سے حسن سلوک:

بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کے رشتہ داروں، نند ، سسر، ساس سے حسن سلوک سے پیش آئے۔

ان سے ایسے ہی اچھا سلوک کرے جیسے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کرتی ہے۔

سوال 3: اولاد کے حقوق و فرائض کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب

                                            اولاد کے حقوق / والدین کے فرائض:

اسلام میں والدین اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی پرورش اور تربیت کریں اور ان کی تمام جائز ضروریات پوری کریں۔

اولاد کے حقوق مختصر طور پر یہ ہیں :

-1 دوزخ سے بچاؤ:

اللہ تعالی فرماتے ہیں :

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ( سورة التحريم : 6)

” اے اہل ایمان ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ سے بچاؤ”۔

2- تحفظ حیات

اسلام سے قبل عرب مفلسی کے خوف سے اور اس جھوٹے غرور کے باعث کہ کوئی ہمار اداماد نہ بن جائے اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔

قرآن پاک نے انہیں اس برے عمل سے منع فرمایا۔

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةً إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنْ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيرًا (بنی اسرائیل : 31)

اور اپنی اولاد کو غربت کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ ان کو قتل کر نا بلا شبہ بڑا سخت گناہ ہے “۔

اللہ تعالی نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی مذمت میں فرمایا:

وَإِذَا الْمَوْعْدَةُ سُمِلَتْ ﴿۸﴾ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ

اور جب زندہ دفن کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل ہوئی “۔

احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم

(سورة التكوير : 9-8)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ ) کہتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ فرمایا: “شرک ” پھر کون سا گناه؟ فرمایا: “والدین کی نافرمانی ” عرض کیا اس کے بعد ؟ ارشاد ہوا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ بڑی ہو کر تیرے ساتھ شریک بعام ہو گی “۔ آپ عورتوں سے جن امور پر بیعت لیتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔

-3 عقیقہ اور ختنہ :

بچے کی پیدائش پر سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اسے نہلا دھلا کر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے پھر اسے گھٹی دی جائے اور برکت کی دعا مانگی جائے۔ ساتویں روز عقیقہ (لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا ذبح کر کے گوشت تقسیم اور خیرات کیا جائے اس کا اچھا نام رکھا جائے اور سر کے بال اتار کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی جائے اور ختنہ کرایا جائے۔

-4 رضاعت

رضاعت کے معنی ہیں ” دودھ پلانا ” اس کی مدت دو سال ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

” اور مائیں اپنے بچوں کو دو سال دودھ پلائیں ( یہ حکم اس کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلائے) اور دودھ پلانے والی ماؤں کا خرچہ حسب دستور باپ کے ذمہ ہے”۔ ( سورة البقره: 233)

5- تعلیم و تربیت:

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے :

اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو”۔

اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے اور جب دس سال کی ہو کر بھی نماز نہ پڑھے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤ”۔

اولاد کے لئے والدین کا بہترین تحفہ اور عطیہ اچھی تعلیم ہے “۔

6- محبت و شفقت

اولاد کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک کرنا چاہیے۔ آپ اپنی نواسی امامہ ( جو آپ کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب (رضی اللہ ) کی بیٹی تھیں) کو گھر میں اور کبھی مسجد میں اٹھائے پھرتے تھے وہ نماز کی حالت میں آپ کی ٹانگوں میں سے گزر جاتیں، کبھی کندھوں پر چڑھ جاتیں، مگر آپ اطمینان سے نماز پڑھتے رہتے۔ ( نماز میں انہیں قیام میں اٹھا لیتے اور رکوع و سجدے میں جاتے تو زمین پر بٹھا دیتے) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ ) کو دیکھا کہ گرتے پڑتے آرہے ہیں آپ نے منبر سے اتر کر حضرت حسن (رضی اللہ ) کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور بقیہ خطبہ اسی حالت میں مکمل کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

بچے تو اللہ کے باغ کے پھول ہیں “۔

7- عدل و مساوات

اولاد کے ساتھ عدل و مساوات کا برتاؤ ہونا چاہیے۔ خاص طور پر لڑکوں کو لڑکیوں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اولاد میں فرق اور امتیاز کرنا ظلم ہے۔

ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام تحفے میں دیا اور چاہا کے حضور کی اس میں گواہی ہو جائے۔ حضور نے پوچھا ” کیا تم نے اپنے سب بچوں کو ایک ایک غلام دیا ہے ؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا: تو میں اس ظلم کا گواہ نہیں بن سکتا۔ “ (ترمذی)

8- نکاح (شادی)

جوان اولاد کے لیے اچھا رشتہ تلاش کرنا اور ان کا نکاح کرنا بھی اولاد کا حق اور والدین کی ذمہ داری ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

تین چیزوں میں تاخیر جائز نہیں :

i فرض نماز جب اس کا وقت ہو جائے۔

ii جنازہ میں جب وہ سامنے ہو۔

iii اولاد کی شادی میں جب ان کا مناسب رشتہ مل جائے۔ (مسند احمد )

9 اولاد کی رضا مندی

فرمان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورت خواہ بیوہ ہو یا کنواری اس کا نکاح اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس کی رضا مندی حاصل نہ کر لی جائے۔ ایک کنواری لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے حالانکہ وہ اس پر خوش نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے لڑکی کو اختیار دے دیا کہ وہ نکاح قائم رکھے یا فتح کر دے۔ (ابو داود )

                                                  اولاد کے فرائض (والدین کے حقوق)

1- فرماں برداری

اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی سوا والدین کا ہر حکم بجالائیں۔ ہر حال میں ان کی فرمانبرداری کریں اور ان کا دل نہ دکھائیں کیونکہ اگر والدین اپنی اولاد کے لئے تنگ آکر بد دعا کر بیٹھیں تو وہ فوراً قبول ہو جاتی ہے۔

تین لوگوں کی دعائیں کبھی رد نہیں ہوتیں :

1 مظلوم کے

2 مسافر کے

3 والدین کی اپنی اولاد کے لیے

2- رحمت و شفقت کا سلوک

اپنے والدین سے محبت ، رحمت اور نرمی کا رویہ اختیار کریں۔ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کریں اور نہ ہی ایسی باتیں کریں جن سے انھیں تکلیف ہو۔

3- بڑھاپے میں خصوصی خدمت:

جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کی بھر پور خدمت کی جائے اور اپنی مصروفیات میں سے مناسب وقت ان کے لیے مخصوص کیا جائے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے: (سورة الاسراء: 24-23).       

“ان دونوں کو اف بھی نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھٹر کو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازو ان کے لیے جھکائے رکھو۔ کہو اے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا “۔

4 بیوی اور والدین کے درمیان عدل و مساوات:

شادی کے بعد اکثر لوگ اپنے والدین کی بجائے بیوی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس طرح والدین کا دل دکھتا ہے اور اللہ بھی ناراض ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی (رضی اللہ ) کے مرنے کا وقت جب قریب آیا تو اس کی زبان پر کلمہ جاری نہ ہوتا تھا۔ آپ نے اس کی ماں کو بلوا کر پوچھا کہ تیرا بیٹا تیرے ساتھ کیا سلوک کرتا تھا؟ تو اس ماں نے جواب دیا کہ میرا بیٹا اپنی بیوی کے مقابلے میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتا تھا اور اکثر اچھے کپڑے اور نیا میوہ اپنی بیوی کو ہی لا کر دیتا تھا۔ اس لئے میں اس سے ناراض ہوں۔ آپ نے اس کی ماں سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کر دے لیکن ماں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے صحابہ (رضی اللہ) کو حکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں اور اس کے بیٹے کو لکڑیوں کے ساتھ جلا دیں۔ ماں یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکی اور اس نے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا۔ چنانچہ فوراً اس صحابی (رضی اللہ) کی زبان پر کلمہ جاری ہوا اور اس کی روح پرواز کر گئی۔ لہذا ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم اپنے ماں باپ اور بیوی کے درمیان عدل و مساوات کارویہ اختیار کریں۔

5- دعائے مغفرت:

والدین کا حق ہے کہ ان کی اولاد ان کی نماز جنازہ پڑھائے، ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے اور ان کی وصیت پر عمل کرے۔

6- دوستوں اور عزیزوں سے اچھا سلوک:

والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بھی اولاد کا فرض ہے۔

7- اولاد کے ترکے میں حصہ :

اسلام نے اولاد کے ترکے میں سے والدین کے لیے 6/1 حصہ مقرر کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ یہ حصہ والدین کو ادا کیا جائے۔

-8 صدقہ جاریہ:

نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے اس لیے اولاد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ والدین کی موجودگی میں اور ان کی وفات کے بعد نیک اعمال کرتے رہیں اور والدین کی مغفرت کی دعا کرتے رہیں تاکہ ان کے درجات بلند ہوں۔

سوال 4: ” والدین کے حقوق ” کے بارے میں سورۃ بنی اسرائیل میں کیا ارشاد ہوا ؟

جواب:

                                                             والدین کے حقوق

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَن وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا *

ترجمہ : ” ان دونوں کو اف بھی نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑ کو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازوان کے لیے جھکائے رکھو۔ کہو اے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا “۔

                                            سوالات اور ان کے مختصر جوابات

س 1: عائلی زندگی سے کیا مراد ہے عائلی زندگی کی تعریف کریں۔

ج: عائلی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جس میں ایک انسان چند افراد ( بیوی بچوں کی معاشی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ عائلہ عربی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ عائلی زندگی سے مراد گھر یلو یا خاندانی زندگی ہے۔ انگریزی میں اسے ” فیملی لائف ” کہا جاتا ہے اردو میں اس کے لئے موزوں لفظ خاندان، کنبہ یا گھرانہ ہے۔

س 2:مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ کیجیے۔

ج: فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَن وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي

صَغِيرًا ( سورة الاسراء : 24-23)  ترجمہ : ” ان دونوں (یعنی والدین) کو اف بھی نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑ کو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازوان کے لیے جھکائے رکھو اور کہو اے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا “۔

س 3 حقوق زوجین سے متعلق کسی ایک آیت کا ترجمہ لکھیں۔

ج: ترجمہ : ” اور اسی طرح ان (عورتوں) کے حقوق ہیں جس طرح ان کے فرائض ہیں رواج کے مطابق “

(سورۃ البقرہ: 228)

س 4: اللہ تعالی نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو محبت اور رحمت کا تعلق قرار دیا ہے۔ قرآنی آیت سے واضح کریں۔  

ج: ترجمہ: اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔

س 5 خاندان اور معاشرے کا باہمی تعلق بیان کریں۔

ج: انسانی تمدن کی ابتدا بھی خاندانی نظام سے ہوئی اور اس کی بقا کے لیے بھی اس کا قیام ضروری ہے۔ خاندان معاشرے کا بنیادی جزو ہے۔ جیسا خاندان ہو گا ویسا ہی معاشرہ اور جیسا معاشرہ ویسا ہی خاندان ہو گا۔

س 6: اسلام نے انسانی معاشرے میں کسی چیز کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ؟

ج: انسانی معاشرے کو مضبوط کرنے کے لئے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے۔ قرآن نے تمام کنواروں کی شادیاں کرنے کا حکم دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اسے اپنی اور انبیاء کی سنت قرار دیا ہے۔ خاندانی نظام کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور خاندانی نظام کو نکاح کے ذریعے دوام بخشا ہے۔

س 7: معاشرے کے دو اہم ستون کون کون سے ہیں؟

ج: زوجین یعنی شوہر اور بیوی، اسلامی معاشرے کے دو اہم ستون ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ” وہی خدا ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کر کے پھیلا دیے”۔ (سورۃ النساء : 1)

س 8: اللہ تعالی کے نزدیک عائلی زندگی کا کیا مقصد ہے؟

ج: اللہ تعالی کے نزدیک عائلی زندگی کا مقصد نسل انسانی کی بقا اور افترائش ہے اور اس کا پاکیزہ ترین راستہ نکاح کے ذریعے استوار کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : غربت کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی ” ۔ (سورۃ الاسراء: 31)

س9:احسان کی وضاحت کیجئے۔

ج: نکاح ایک جوڑے کے درمیان عائلی زندگی کی جائز بنیاد فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکیزہ تعلقات وجود میں آتے ہیں۔ قرآن نے رشته ازدواج کو ” احسان ” کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے ” قلعہ بند ہو کر محفوظ ہو جانا ” شادی کے بعد زوجین غیر اخلاقی حرکتوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

س 10: قرآن مجید نے نیک بیوی کی کیا صفات بیان کی ہیں ؟ یا فرمانبردار بیویوں کی دو خصوصیات بیان کریں۔

ج: قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : فَالصَّلِحْتُ قُنتت حُفظت لِلْغَيْبِ ” نیک عور تیں فرمانبردار اور شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کی محافظ ہوتی ہیں۔

س 11 نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اچھی عورت (اچھی بیوی) کی کیا صفات بیان کی ہیں ؟

ج:حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم   نے فرمایا : اچھی عورت وہ ہے جو اُس کا شوہر اسے دیکھے تو اسے مسرت ہو ، شوہر حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور اُس کی غیر موجودگی میں اُس کے مال اور اپنی آبرو کی حفاظت کرے۔

س :12: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا کا ترجمہ لکھیں۔

ج: ” اے اہل ایمان ! اپنی جانوں کو اور اپنے اہل خانہ کو (دوزخ کی آگ سے بچاؤ “۔)

س :13: والدین کے ساتھ حسن سلوک سے متعلقہ آیت کا ترجمہ لکھیں۔

ج:(اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  تیرے رب نے حکم دیا کہ تم اُس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسن سلوک کر وا گر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو تم ان دونوں کو آف بھی نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑ کو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازوان کے لیے جھکائے رکھو۔ کہو اے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔

س :14 والدین کے چند حقوق مختصر التحریر کریں؟ یا اولاد کے فرائض بیان کریں۔

ج: والدین کی فرمانبرداری کرنا سوائے اللہ کی نافرمانی کے 

. رحمت و محبت اور نرمی کارویہ

. ان کی رائے کو مقدم جاننا

. بڑھاپے میں اُن کے لیے وقت نکالنا

. وفات کے بعد والدین کے لئے مغفرت کی دعا کرنا

. ان کی زندگی میں ان کے لیے رحم کی دعا کرنا

س 15: والدین کے چند فرائض لکھیں۔ اولاد کے چند حقوق لکھیں۔

ج: 

. اولاد کی پرورش کرنا

. تعلیم و تربیت احسن طریقے سے کرنا

. اولاد میں عدل و انصاف کرنا

. اچھا نام رکھنا

. شادی اُن کی مرضی کے مطابق کرنا

س 16 نیک اولاد سے والدین کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟

ج: نیک اور صالح اولاد والدین کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ جو والدین کی وفات کے بعد ان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کے اضافے کا باعث بنتی ہے۔ مثلاً تلاوت قرآن کے ذریعے ، ذکر واذکار کے ذریعے والدین کے لئے ایصال ثواب کرتی رہتی ہے۔

س 17 قرآن نے رشتہ ازدواج کو کیا نام دیا ہے اس کے کیا معنی ہیں؟

ج: قرآن نے رشتہ ازدواج کو احسان کا نام دیا ہے۔ جس کا مطلب ہے قلعہ بند ہو کر محفوظ ہو جانا۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد زوجین محصن ( قلعه بند ) یا غیر اخلاقی حرکتوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

س 18 اہل خانہ سے حسن سلوک سے متعلقہ حدیث مبارکہ کا ترجمہ لکھیں۔

ج: تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔

س 19: اللہ تعالی نے انسان کو خاندانوں اور قبیلوں میں کیوں تقسیم کیا ؟

ج: اللہ تعالی نے انسان کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا تا کہ وہ ایک دوسرے کی پہچان کر سکیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:  بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری پہچان کے لیے خاندان اور قبیلے بنائے۔ (سورۃ الحجرات: 13)

س 20 بیوی کے دو حقوق تحریر کریں؟ یا شوہر کے دو فرائض تحریر کریں؟

ج:

. حق مہر کی ادائیگی

. نان و نفقہ کا بند و بست کرنا

س 21 بیوی کے دو فرائض بیان کریں۔

ج:

 . شوہر کی فرمانبرداری

. شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کی حفاظت

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks