Class Matric Part 2 NotesIslamiat class 10th

Matric Part 2 Class 10th Islamiat Unit 8 Urdu Medium

Matric Part 2 Class 10th Islamiat Unit 8 Urdu Medium on newsongoogle.com by Bilal Articles

 موضوعاتی مطالعه

   باب هشتم

      ہجرت و جہاد

سوال 1: ہجرت سے کیا مراد ہے ؟ سورہ نساء میں ہجرت کے بارے میں کیا حکم آیا ہے ؟ یا ہجرت پر نوٹ لکھیں۔

جواب:

ہجرت کے لغوی معنی:

ایک جگہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانے کو ہجرت کہتے ہیں “۔

-1 اسلام میں ہجرت کا مفہوم:

اسلام میں ہجرت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایسی جگہ سے مسلمانوں کا کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانا جہاں وہ محکوم اور مظلوم ہوں اور بر سر اقتدار لوگ انہیں اسلام پر عمل کرنے پر تکلیف دیتے ہوں۔ مثلاً جس طرح کفار مکہ کے ظلم و ستم مسلمانوں پر جب حد سے بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور نبوت کے تیرہویں سال آپ اور صحابہ کرام (رضی اللہ ) مدینہ منورہ ہجرت کر گئے۔

2 ہجرت کی شرائط:

i اللہ کی راہ میں ہجرت کی جائے۔

ii اللہ کے دین پر قائم رہنے کے لیے ہجرت کی جائے۔

iii. دین کی دعوت و اشاعت کے لئے ہجرت کی جائے۔

3- سورۃ النساء میں ہجرت کے بارے میں حکم:

” جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں، تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کا ملک فراخ نہ تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ ہاں جو مرد عور تیں اور بچے بے بس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ راستہ جانتے ہیں، قریب ہے کہ اللہ ایسوں کو معاف کر دے اور اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ دے وہ زمین میں بہت سے جگہ اور کشائش پائے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے ، تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہو چکا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”۔

ہجرت سے استثنا:

اگر کوئی شخص ہجرت کے وسائل نہ رکھتا ہو یا کسی مجبوری کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکے تو اللہ اسے معاف کرنے والا ہے۔

– مہاجرین کا مقام اور مرتبہ :

اللہ تعالی نے مہاجرین کے بے شمار درجات بیان کیے ہیں ، ان کو سچے مومن کہا ہے اور ان کو عزت کی روزی دینے کا وعدہ کیا ہے۔

سورۃ الانفال میں ہے : جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ( یعنی مہاجرین) اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور ان کی مدد کی ( یعنی انصار ) وہی سچے مومن ہیں اور ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ ( سورۃ الانفال : 74)

بلا عذر ہجرت نہ کرنے والوں کو وعید :

سورۃ الانفال میں اللہ تعالی نے نبی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے فرمایا: جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت نہیں کی تو ان کی رفاقت سے تمہیں کوئی سروکار نہیں۔

4- سورۃ آل عمران میں ہجرت کرنے والوں کو خوشخبری:

تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی ( اور فرمایا کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ، مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا۔ تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لئے وطن چھوڑ گئے ( ہجرت کر گئے) اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کر دوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ اللہ کے ہاں سے بدلہ ہے اور اللہ کے ہاں اچھا بدلہ ہے “۔

 (سورة آل عمران : 195)

-5 ہجرت کرنے والوں کو سورۃ النحل میں بشار تیں:

جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش ! وہ اسے جانتے یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں۔

(سورة النحل : 42-41)

” پھر جن لوگوں نے بلائیں اٹھانے کے بعد وطن ترک کیا پھر جہاد کیا اور ثابت قدم رہے بے شک تمہارا پروردگار ان آزمائشوں کے بعد انہیں بخشنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے “۔  (سورة النحل : 110)

دین اسلام کی مشہور ہجرتیں :

1 ہجرت حبشہ

ii ہجرت مدینه

6- سب سے بڑا عمل:

جب تک جہاد فرض نہیں تھا تب تک سب سے بڑا عمل ہجرت تھا۔

سوال 2: جہاد سے کیا مراد ہے ؟ اس کی مختلف اقسام تفصیل سے بیان کریں۔ 

یا جہاد بالمال اور جہاد بالنفس پر نوٹ لکھیں۔

جواب:

جہاد کے لغوی معنی:

جہاد کا لفظ ” جہد ” سے نکلا ہے جس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں۔

-1 اسلام میں جہاد کا مفہوم:

اسلام میں جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ حق کی سربلندی، اس کی اشاعت و حفاظت کے لئے ہر قسم کی کوشش، قربانی اور ایثار کرنا، نیز اپنی تمام مالی، جسمانی اور دماغی قوتوں کو اللہ کی راہ میں صرف کرنا اور اللہ تعالی کو اس دنیا کا حقیقی حاکم جاننا اور اس کے مقابلے میں کسی اور کا حکم نہ چلنے دینا۔ جہاد اللہ کی راہ میں دشمن سے بھر پور مقابلہ ہے۔ یہ مقابلہ جانی، مالی اور زبانی کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔ اسلام میں جہاد بہت بڑی عبادت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ( سورة العنكبوت: (69)

اور جن لوگوں نے ہمارے بارے میں جہاد کیا ہم ان کو اپنے راستے دکھائیں گے یقیناً اللہ تعالی نیکو کاروں کے ساتھ ہے “۔

وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ( سورة المائده : 35)

ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

2- جہاد کی شرائط :

جہاد ایک منظم کوشش کا نام ہے اس کے چند ایک اصول و ضوابط اور شرائط درج ذیل ہیں :

i بغیر کسی نظم اور امیر کے جہاد یا مسلح کوشش نہیں کی جاسکتی۔

ii اسلامی ریاست کی طرف سے اس کا باقاعدہ حکم ضروری ہے۔

iii. علمائے کرام و مجتہدین کے اداروں نے حالات و اسباب کا بے لاگ جائزہ لے کر اس کے امکانات اور ضرورت کا فیصلہ دیا ہو۔

iv اہم ترین مقصد مظلوم مسلمانوں کی مدد ہو۔

v اشاعت اسلام کے راستے کی رکاوٹوں اور فتنوں کو دور کرنا اور رضائے الہی کا حصول ہو۔

3- جہاد کی اقسام:

جہاد کی تین اقسام ہیں :

1- جہاد بالعلم :

دنیا کا تمام شر اور فساد جہالت کا نتیجہ ہے جس آدمی کے پاس علم و دانش ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے استعمال میں لاکر جہالت کی تاریکیوں کو ختم کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

“أدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ “( سورة النحل : 125)

 لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف آنے کی دعوت حکمت و دانش اور خوبصورت نصیحت کے ساتھ دو اور ان سے مجادلہ ( بحث و مباحثہ ) بہت ہی خوبصورت طریقے سے کرو”۔

سورۃ الفرقان میں اسے ” جِهَادًا كَبِيرًا “قرار دیا گیا ہے۔

2- جہاد بالعمال:

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے :

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجْهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ  ( سورة التوبه : 20)

” جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا یہ لوگ اللہ کے ہاں بلند مرتبہ پر فائز ہیں “۔ جہاد میں مال کی بڑی اہمیت ہے اس سے مجاہدین کے لیے اسلحہ ، سامان خوردونوش اور ادویات خریدی جاتی ہے۔ غزوہ تبوک میں حضور نے مسلمانوں

سے مالی امداد کی اپیل کی تو حضرت عمر (رضی اللہ ) گھر کا نصف سامان لے آئے اور حضرت ابو بکر (رضی اللہ ) نے گھر کا سارا سامان آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دیا۔

3- جہاد بالنفس :

اپنے جسم و جان سے جہاد کر نا حتی کہ اللہ کی راہ میں دین راہ کے دشمنوں سے لڑتے لڑتے اپنی جان تک پیش کر دینا جہاد بالنفس ہے۔ اسے قرآن مجید میں ” قال ” کہا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا پسندیدہ ترین عمل ہے کہ انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کی راہ میں نکلے۔

فرمان خداوندی ہے :

إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مُرْصُوصٌ ( سورة الصف : 4)

” اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں، جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ۔

شہید کا مرتبہ :

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لا تَنا تَشْعُرُوْنَ (سورة البقره: 154)

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں ہے “۔

ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ہے

شہید کا خون زمین پر گرنے سے قبل اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں “۔

جنت تلواروں کے سائے تلے ہے “۔

4 جہاد کی مزید تین اقسام درج ذیل ہیں :

1- جہاد بالقلم :

جہاد بالقلم سے مراد تحریر و تصنیف کے ذریعے اسلام کی تعلیمات دوسروں نیک پہنچانا۔ حق کی حمایت میں تصنیف و تالیف جہاد بالقلم ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

” شہید کا خون اور عالم (کے قلم) کی روشنائی قیامت کے دن وزن کے پلڑے میں برابر ہوں گے “۔

2- جہاد بللسان:

زبان و تقریر کی صلاحیتوں کو کام میں لانا۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت ، جہاد کی ترغیب، مجاہدین کی حوصلہ افزائی، گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی تلقین جہاد بللسان کہلاتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( سورة حم سجده : 34)

“ان کا ایسے طریقے سے جواب دو جو بہت اچھا ہو”۔

3- جہاد بالسیف:

تلوار ، توپ اور بندوق کے ساتھ جہاد کرنا، جہاد بالسیف کہلاتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

اور کفار سے لڑتے رہو یہاں تک کہ کفر کا فساد باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے”۔ 

( سورة النفال : 39)

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

“جنت تلواروں کے سائے تلے ہے “۔

سوال 3: جہاد کے فضائل پر نوٹ لکھیں۔

جواب:

جہاد کے لغوی معنی:

جہاد کا لفظ ” جہد ” سے نکلا ہے جس کے معنی ” محنت اور کوشش ” کے ہیں۔

1- اسلام میں جہاد کا مفہوم:

اسلام میں جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ حق کی سربلندی، اس کی اشاعت و حفاظت کے لئے ہر قسم کی کوشش، قربانی اور ایثار کرنا، نیز اپنی تمام مالی، جسمانی اور دماغی قوتوں کو اللہ کی راہ میں صرف کرنا اور اللہ تعالی کو اس دنیا کا حقیقی حاکم جانا اور اس کے مقابلے میں کسی اور کا حکم نہ چلنے دینا۔ یہ دنیا خیر اور شر کی دنیا ہے اگر یہاں کوئی شر کی طاقت ” اقتدار اعلی “اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا قانون نافذ کرنا چاہے تو اپنی جان پر کھیل کر اس کا مقابلہ کرنا جہاد کہلاتا ہے۔ جہاد اللہ کی راہ میں دشمن سے بھر پور مقابلہ ہے، یہ مقابلہ جانی و مالی اور زبانی کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔ اسلام میں جہاد بہت بڑی عبادت ہے۔

2 جہاد کے فضائل ( قرآن کی روشنی میں):

1- محبت الہی کا ذریعہ :

” بے شک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر جنگ کرتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ ( سورة الصف : 4)

2 اجر عظیم کی بشارت:

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور انہوں نے راہ خدا میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا، اللہ کے نزدیک ان کا بڑا درجہ ہے اور یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ انہیں ان کا رب اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ایسے باغات کی خوشخبری دیتا ہے کہ جن میں ان کے ۔ اپنی لیے دائمی نعمتیں ہونگی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے بے شک اللہ تعالی کے پاس ہی اجر عظیم ہے “۔

3 – جنت کا وعدہ

” بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کے جان و مال خرید لیے ہیں ان کا صلہ ان کے لیے جنت ہے “۔

4 – حیات جاوداں:

” جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تمہیں ( ان کی زندگی کا شعور نہیں “۔ (سورۃ البقرہ: 154)

ارشادات نبوی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم

i ” جس شخص کے پاؤں خدا کی راہ میں غبار آلود ہوئے اللہ تعالی نے اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دیا”۔

ii. ” دو قسم کی آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ جو خدا کے ڈر سے آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہے ، دوسری وہ جو خدا کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے بیدار رہتی ہے۔”

iii. “خدا کی راہ میں ایک دن کی چوکیداری ( ملک کی حفاظت ) دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے “۔

3- اجر عظیم کا باعث :

“مجاہد فی سبیل اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے دن بھر روزہ رکھنے والا اور رات کو تہجد اور تلاوت قرآن میں مشغول رہنے والا “۔

4- دعاؤں کی یقینی قبولیت:

“دود عائیں کم ہی رد ہوتی ہیں ، ایک اذان کے وقت کی دعا اور دوسری میدان جنگ میں کی جانے والی دعا”۔

5- شہادت کی لذت:

جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس خیال سے واپس آنے کو پسند نہ کرے گا کہ زمین میں جو کچھ ہے اس کو پھر مل جائے مگر شہید اس کی آرزو کرے گا کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور دس مرتبہ مارا جائے ، اس لئے کہ شہادت میں جو لذت ہے وہ کسی اور قسم کی موت میں نہیں۔

-6 جنت میں بلند ترین درجہ و مقام:

ج: حدیث شریف میں ہے : ” قیامت کے دن جنتی گرد نہیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے کہ شہداء کس قدر بلند مقام پر فائز ہوں گے “۔

                                      سوالات اور ان کے مختصر جوابات

 س 1: ہجرت کا معنی اور مفہوم کیا ہے ؟ یا اسلام میں ہجرت سے کیا مراد ہے؟

ج:  ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو جانے کو ہجرت کہتے ہیں۔ اسلام میں ہجرت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایسی جگہ سے مسلمانوں کا کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانا جہاں وہ محکوم اور مظلوم ہوں اور بر سر اقتدار لوگ انہیں اسلام پر عمل کرنے پر تکلیف دیتے ہوں جیسے نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اپنے صحابہ (رضی اللہ ) کو مکہ سے حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی اور جب مکہ میں کفار کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ (رضی اللہ ) نے دار الامان مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔

س 2:سورۃ النحل میں ہجرت کرنے والوں کو کیا بشارتیں دی گئی ہیں؟

ج: ” جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش ! وہ اسے جانتے یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھر و سار کھتے ہیں۔

” پھر جن لوگوں نے بلائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا پھر جہاد کیا اور ثابت قدم رہے ، بے شک تمہارا پروردگار ان آزمائشوں کے بعد بخشنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے “۔

س 3: بلا عذر ہجرت نہ کرنے والوں کو کیا وعید سنائی گئی ہے ؟

ج: جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔ 

س 4: جو لوگ عاجز اور ناتواں نہ ہونے کے باوجود ہجرت نہ کریں اُن کے لیے کیا حکم ہے؟

ج: جو لوگ قوت و استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کریں، فرشتے ان کو دوزخ میں گھسیٹ کر پھینک دیں گے اور مزید یہ کہ سورۃ الانفال میں ایسے لوگوں سے مومن لوگوں کو بے تعلقی کا حکم دیا گیا ہے۔

س 5: جو لوگ مجبوری کی بنا پر ہجرت نہ کر سکیں ان کے لیے کیا حکم ہے؟

ج: جو لوگ مجبوری اور راستہ نہ جاننے کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکیں امید ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی معاف کر دے گا اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

س 6: سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے ہجرت کرنے والوں کا کیا اجر بیان کیا ہے ؟

ج: فرمان خداوندی ہے : ” جو شخص اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں کشائش پائے گا اور اگر اسے راستے میں موت آجائے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ انہیں بہشتوں میں داخل کرے گا۔

س 7: اللہ تعالی نے ہجرت کرنے والے کے لئے کیا انعامات رکھے ہیں؟

ج: اللہ تعالی نے ہجرت کرنے والوں کے لئے مغفرت، جنت اور بہترین اجر کے انعامات رکھتے ہیں۔

س 8: جہاد کی کتنی قسمیں ہیں اور کون کون سی؟

ج:

. جہاد کی تین اقسام ہیں۔

. جہاد با لعلم

. جہاد بالمال

. جہاد بالنفس

س: جہاد بالعلم سے کیا مراد ہے؟

ج: علم کے ذریعے سے جہالت کی تاریکی کو دور کرنا جہاد بالعلم کہلاتا ہے۔ سورۃ الفرقان میں جہاد بالعلم کو ” جہاد کبیر ” کہا گیا ہے ۔ دنیا کا تمام شر اور فساد جہالت کا نتیجہ ہے جس آدمی کے پاس علم ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے استعمال میں لاکر جہالت کی تاریکیوں کو ختم کرے۔

س 10 جہاد بالمال سے کیا مراد ہے ؟

ج: جہاد بالعمال سے مراد اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا ہے۔

قرآن پاک میں ہے: “اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو”۔

جہاد میں مال کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے مجاہدین کے لیے اسلحہ ، کھانے پینے کا سامان اور ادویات خریدی جاتی ہیں۔ غزوہ تبوک میں حضور نے مسلمانوں سے مالی امداد کی اپیل کی تو حضرت عمر (رضی اللہ ) گھر کا آدھا سامان لے آئے اور حضرت ابو بکر (رضی اللہ) نے گھر کا سار ا سامان آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ حضور  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا ابو بکر (رضی اللہ ) ! اپنے اہل خانہ کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟

ابو بکر (رضی اللہ ) نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا نام چھوڑ آیا ہوں۔

س 11: جہاد بالنفس سے کیا مراد ہے؟

ج:  اپنے جسم و جان سے جہاد کرنا حتی کہ اللہ کی راہ میں دین کے دشمنوں سے لڑتے لڑتے اپنی جان تک پیش کر دینا جہاد بالنفس کہلاتا ہے۔ اسے قرآن مجید میں قتال کہا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا پسندیدہ ترین عمل ہے کہ انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کی راہ میں نکلے۔ 

فرمانِ خداوندی ہے :

اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں۔ ( سورة الصف : 4)

ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے :

شہید کا خون زمین پر گرنے سے قبل اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں “۔

س 12 جہاد اکبر کے کہا گیا ہے ؟ تفصیلاً بتائیے۔

ج:اپنے نفس کی خواہشات کے خلاف جہاد کرنے کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔ بعض علماء کی رائے میں یہ سب سے اعلی قسم کا جہاد ہے۔ حضرت جابر (رضی اللہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام (رضی اللہ ) سے جو اسی وقت میدان جنگ سے واپس آئے تھے ، فرمایا: “تمہارا آنا مبارک ہو تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو اور بڑا جہاد اپنے نفس کی خواہشات سے لڑنا ہے “۔ اپنے نفس پر قابو پالینے کے بعد شیطانی طاقتوں سے نمٹنا ضروری ہے جو مسلمان معاشرے کے اندر غلط رسم ورواج کی شکل میں پائی جاتی ہیں۔

س 13: جہاد کا لغوی اور اسلامی اصطلاحی مفہوم بیان کریں؟ جہاد کی وضاحت کیجئے۔

ج: جہاد کا لغوی معنی محنت اور کوشش کرنے کا ہے۔ اسلام کی اصطلاح میں حق کی سربلندی، اس کی اشاعت و حفاظت کے لئے ہر قسم کیکوشش، قربانی اور ایثار کرنا اپنی تمام مالی، جسمانی اور دماغی قوتوں کو اللہ کی راہ میں صرف کر دینا جہاد کہلاتا ہے۔

س 14:جہاد کی شرائط مختصر اتحریر کریں؟

ج: جہاد ایک منظم کوشش ہے۔ اس کے چند ایک اصول و ضوابط اور شرائط درج ذیل ہیں :

. بغیر کسی نظم اور امیر کے جہاد یا مسلح کوشش نہیں کی جاسکتی۔

. اسلامی ریاست کی طرف سے اس کا باقاعدہ حکم ضروری ہے۔

. علمائے کرام و مجتہدین نے حالات و اسباب کا بے لاگ جائزہ لے کر اس کے امکانات اور ضرورت کا فیصلہ دیا ہو۔

. اہم ترین مقصد مظلوم مسلمانوں کی مدد ہو۔

. اشاعت اسلام کے راستے کی رکاوٹوں اور فتنوں کو دور کرنا اور رضائے الٰہی کا حصول ہو ۔

س 15 عورتوں کا جہاد کے کہا گیا ہے ؟ متعلقہ حدیث مبارکہ کا حوالہ دیں۔

ج: ایک مرتبہ جب عورتوں نے جہاد کی اجازت چاہی تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا جہاد حج مبرور ہے۔

س 16: حج مبرور سے کیا مراد ہے؟

ج حج مبرور سے مراد حج مقبول ہے۔ یعنی ایسانج جس کے مناسک صحیح طریقے سے پورے کیے گئے ہوں اور جس کا اجر گناہوں سے مکمل نجات دینے والا ہو اور بری کر دینے کا ذریعہ ہو۔

س 17: انسانوں کو جو مال و دولت عطا کیا گیا ہے ، اس کا مقصد کیا ہے ؟

ج: اللہ تعالی نے انسان کو جو مال و دولت عطا کیا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے میں خرچ کیا جائے اور حق کی حمایت و نصرت کے سلسلے میں انفاق ( خرچ ) سے گریز نہ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

ترجمہ : ” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا، یہ لوگ اللہ کے پاس نہایت بلند مرتبہ پر فائز ہیں “۔

س 18 راہ خدا میں شہید ہونے والوں کی کیا فضیلت ہے ؟

ج: جہاد میں شہید ہونے والوں کو مردہ کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور اس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف سے رزق پار ہے ہیں اور اس پر خوشیاں منارہے ہیں۔ ان کے لئے اجر عظیم ، جنتوں اور بہترین ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔

س 19: قرآن کریم میں دعوت و تبلیغ کے کیا اصول بیان کئے گئے ہیں ؟

ج:  اللہ تعالی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے : ” لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف آنے کی دعوت حکمت و دانش اور خوبصورت نصیحت کے ساتھ کرو اور ان سے مجادلہ ( بحث و مباحثہ ) بہت ہی خوبصورت طریقے سے کرو”۔

س 20: افضل جہاد کونسا ہے ؟

ج: جہاد بالنفس یعنی جہاد بالقتال افضل جہاد ہے۔

س:21:  جہاد کب ضروری ہے؟

ج:جب مظلوم مسلمانوں کی امداد کرنے اور اشاعت اسلام کے راستے میں دشمنان اسلام کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں تو پھر ایسی صورت میں ان سے جہاں ضروری ہو جاتا ہے بشر طیکہ ایک اسلامی ریاست کی طرف سے باقاعدہ اس کا حکم دیا گیا ہو ، علماء و مجتہدین کے اداروں نے جہاد کی ضرورت کا فیصلہ دیا ہو۔

س 22: جہاد کے فضائل تحریر کریں۔

ج: جہاد کے فضائل درج ذیل ہیں :

بے شک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر جنگ کرتے ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے دن بھر روزہ رکھنے والا اور رات بھر تہجد اور تلاوت قرآن میں مشغول رہنے والا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks