Class Matric Part 2 NotesIslamiat class 10th

Matric Part 2 Class 10th Islamiat Unit 9 Urdu Medium

Matric Part 2 Class 10th Islamiat Unit 9 Urdu Medium on newsongoogle.com by Bilal Articles

                موضوعاتی مطالعه

            باب نہم

     حقوق العباد، انسانی رشتوں اور تعلقات سے متعلق حضور اکرمصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت اور ارشادات

سوال 1: حقوق العباد کی ایک فہرست بنائیے۔

جواب: حق کی جمع حقوق ہے جس سے مراد وہ ذمہ داریاں ہیں جو معاشرے کے افراد پر ان کے زیر دست لوگوں کے لئے لازم ہوتی ہیں۔

اسلام میں حقوق العباد کی فہرست یوں ہے :

1 – والدین کے حقوق 2- اولاد کے حقوق 3- حقوق زوجین 4- رشتہ داروں کے حقوق 5- جنگی قیدیوں کے حقوق 6- آقا اور غلاموں کے حقوق 7- ہمسایوں کے حقوق  8- غیر مسلموں کے حقوق 9- مزدوروں کے حقوق 10- بیماروں کے حقوق

سوال 2: حقوق العباد پر نوٹ لکھیں۔

جواب: حقوق العباد سے مراد بندوں کے حقوق ہیں۔ جو ان کے خالق نے ان پر عائدہ کیسے ہیں تاکہ انسانیت حسن معاشرت سے مستفید ہو ۔ اللہ تعالی نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی اپنے حقوق معاف فرمادے گا مگر بندوں کے حقوق بندے ہی معاف کریں گے تو نجات ہوگی۔

-1 والدین کے حقوق:

اسلامی معاشرے میں حقوق العباد میں سب سے زیادہ اولیت والدین کے حقوق کو حاصل ہے۔

-2: والدین کے حقوق قرآن کی روشنی میں:

 اور تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ ” اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑ کو اور انکساری کے ساتھ ان کے آگے جھکے رہو اور دعا کرتے رہو اے پروردگار ! ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا “۔ 

(بنی اسرائیل : 24-23)

والدین کے حقوق احادیث کی روشنی میں:

خدا کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ بھلائی کرنا اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ والد کی رضا اللہ کی رضا میں اور والد کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔

3- اولاد کے حقوق

پرورش کرنا، تعلیم و تربیت، عدل و انصاف اور ان کی مرضی سے شادی کرنا۔ زمانہ جاہلیت میں اولاد کے حقوق کو والدین کے مرتبہ اور تکریم کے خلاف سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے والدین پر اولاد کے حقوق کی بھی بہت سخت

تاکید کی ہے اور ان کے اعمال کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا ہے۔

اولاد کے حقوق قرآن کی روشنی میں:

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةً إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيرًا اپنی اولاد کو فکر وفاقہ کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم انہیں اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں بے شک ان کا مار ڈالنا بڑا گناہ ہے “۔ (بنی اسرائیل : 31)

-4 حقوق زوجین

اولاد اور والدین کے بعد تعلقات کی فہرست میں سب سے اہم معاشرتی تعلق اور خاندان کی مضبوط ترین نشو و نما کا ذریعہ زوجین ہیں، جس کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے اور اللہ کی جنتوں پر اختتام ہوتا ہے۔ ان کے تعلق کا بگاڑ شیطان کو سب سے زیادہ پسند ہے اور اس تعلق کا قیام اللہ کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے۔ اس کو مضبوط بنانے کے لیے اسلام نے ان کے حقوق و فرائض مقرر فرمادیے ہیں۔

حقوق زوجین قرآن کی روشنی میں:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ * ( سورة البقرة : 228)

اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے۔ دستور کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔

اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے پیدا کیے ، تاکہ تم ان سے سکون پاؤ اور تم میں مہر و محبت پیدا کردی۔

حقوق زوجین احادیث کی روشنی میں :

” تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے “۔

خَيْرُكُم خَيْرُكُم لِأَهْلِهِ

” تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو”۔

5رشتہ داروں کے حقوق:

اسلام رشتہ داروں کے حقوق پر بہت زور دیتا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی میں انسان کا واسطہ اہل خانہ کے بعد سب سے پہلے انہی سے پڑتا ہے۔ دین اسلام میں عزیز واقارب سے اچھا سلوک روارکھنا احسان ہی نہیں بلکہ ان کا حق بھی ہے۔

رشتہ داروں کے حقوق قرآن کی روشنی میں:

وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ

رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کرو”۔

وَأَنَّى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبي ( سورة البقره: 177)

اصل نیکی اس شخص کی ہے جس نے محبت سے عزیز واقارب کو مال دیا”۔

رشتہ داروں کے حقوق حدیث مبارکہ کی روشنی میں :

لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِع  (صحیح مسلم)

“رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہ جائے گا “۔

6- غلاموں کے حقوق ( موجودہ دور کے نوکر چاکر اور اصحاب خانہ):

(سورۃ بنی اسرائیل: 26)

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ملازموں اور خدمت گاروں کے ساتھ برابری کے سلوک سے عملی نمونہ پیش کیا اور ان کے اس حق کے بارے میں خاص طور پر تاکید فرمائی۔

غلاموں کے حقوق قرآن کی روشنی میں:

. ” تمہارے غلام اگر اہلیت رکھتے ہوں تو ان کے نکاح کر دیا کرو “

. ” مومنہ لونڈی مشرکہ سے بہت بہتر ہے کہ نکاح میں لائی جائے “

غلاموں کے حقوق حدیث مبارکہ کی روشنی میں:

” غلاموں سے اچھا سلوک کرو جو خود کھاتے ہو انہیں بھی کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ویسا نہیں بھی پہناؤ ا گر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو اللہ کے بندو! انہیں فروخت کر دو اور انہیں سزا نہ دو۔

7- ہمسایوں کے حقوق:

اسلام نے ہمسایوں کو قریباً قریب رشتہ داروں کی مانند حقوق دیے ہیں۔ ہمسایہ سے مراد گھر کے قریب رہنے والے ہیں اسے عربی میں ” جار ” کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا میرے دو پڑوسی / ہمسایہ ہیں میں تحفہ بھیجنا چاہوں تو کس کو بھیجوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس کا گھر تیرے گھر کے قریب تر ہو۔

ہمسایوں کے حقوق قرآن کی روشنی میں:

اور خدا نے تم لوگوں کو ہمسایہ قریب اور بعید اور پہلو کے ہمسایہ کے ساتھ نیکی کا حکم دیا ہے”۔ ( سورة النساء : 36)

ہمسایوں کے حقوق احادیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں:

“خدا کی قسم مومن نہ ہو گا ، خدا کی قسم مومن نہ ہو گا خدا کی قسم مومن نہ ہو گا، جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں”۔ ” جبرائیل مجھے بار بار پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالی ہمسائے کو وراثت میں سے حصہ دینے کا حکم نہ دے دے”۔

8 – غیر مسلموں کے حقوق:

شہری مسلم ہوں یا غیر مسلم اسلام نے ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا ہے۔ نبی نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق العباد کی باز پرس ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی ریاست میں غیر مسلم لوگوں کے بھی حقوق مقرر کر دیے ہیں۔ اور ان کے ساتھ شفقت و رحمت کی تلقین کی ہے۔

غیر مسلموں کے حقوق قرآن کی روشنی میں:

لَا يَجْرِ مَنْكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى ( سورة المائدة: 08)

اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو عدل کرو یہی تقوی کے زیادہ قریب ہے “۔

لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ( سورة البقرة: 256)

” دین میں کوئی جبر نہیں ہے “۔

غیر مسلموں کے حقوق حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں :

ام المومنین حضرت صفیہ (رضی اللہ ) نے اپنے دو یہودی رشتہ داروں کو تیس ہزار درہم صدقہ میں دیے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم زندہ تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے منع نہیں فرمایا۔

9 بیماروں کے حقوق:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا: جس نے مریض کی عیادت کی تو جب تک وہ واپس نہ لوٹے تب تک وہ جنت کے باغ میں ہے۔ (صحیح مسلم)

10- مزدوروں کے حقوق:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔

11- یتیموں کے حقوق:

نبی نے یتیموں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔

آپ نے یقیموں کی نگہداشت اور حقوق کی ادائیگی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر فرمایا: ” میں اور یتیم کی نگہداشت کرنے والا جنت میں یوں (ساتھ ساتھ ) ہوں گے۔ (بخاری)

سوال 3: خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں عورتوں کے حقوق و فرائض بیان کریں۔

جواب: یوں تو دین اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا تر جمان اور علمبردار ہے اور تمام انبیاء نے انسانی آزادی اور اُن کے حقوق و فرائض کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ سلسلہ نبوت کے آخری پیغمبر حضرت محمد نے اس کی مزید تاکید و تلقین فرمائی ہے۔ آپ کی تعلیمات کا نچوڑ خطبہ حجۃ الوداع میں سمٹ گیا ہے گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں عورتوں کے حقوق و فرائض درج ذیل ہیں :

-1 عورتوں کے حقوق:

– مہر کی ادائیگی:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا: عورتوں کے حقوق اور تمہارے ان پر لازم ہے ان کا مہر ادا کرو اور اللہ تعالی سے ڈرو جس کا نام لے کر اور واسطہ دے کر تم نے ان کو نکاح میں لیا ہے۔

– وراثت کا حق

وراثت کے حق میں اب کوئی وصیت نہیں ہے لہذا قرآن کے حکم کے مطابق آپ نے عورتوں کو بھی مردوں کے ساتھ وراثت کا حقدار ٹھہرایا ہے۔

– سزا سے اجتناب

عورتوں کو سزادینے سے منع کیا گیا ہے اور ناگزیر حالت میں بھی ہڈی توڑنے اور منہ پر مارنے سے منع کیا گیا ہے۔

– نان و نفقہ کا حق

دستور کے مطابق مردوں کو عورتوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کا حکم دیا گیا ہے۔ خوراک، لباس اور رہائش کی فراہمی کی ذمہ داری خاوند پر رکھی گئی ہے۔

راز داری

عورتوں اور مردوں دونوں کو ایک دوسرے کے لباس قرار دے کر رازوں کے افشا کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے ، جو زمانہ جاہلیت میں عرب فخر سے بیان کرتے تھے۔

-2 عورتوں کے فرائض:

انسان کے نسب کی حفاظت:

اولاد اسی کی جس کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ عورت اور مرد زنا سے دور رہیں کیونکہ اس کی سزار جم یعنی سنگسار کرنا ہے۔ عورت کو بلا وجہ مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔

– آبرو کی محافظ :

عورت اپنے خاوند کی آبرو کی محافظ ہے۔ اسے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔

– گھر کی محافظ :

گھر و مال کی عورت محافظ ہے لہذا اسے کسی ایسے شخص کو گھر میں داخل نہ ہونے دینا چاہیے جس کو اس کا خاوند ناپسند کرتا ہو۔

– بے حیائی کے ارتکاب سے اجتناب:

عورتوں کو بے حیائی کے ارتکاب سے منع کیا گیا ہے ، باز نہ آنے کی صورت میں الگ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ملکی سزا کا حکم دیا گیا ہے مگر ان کو بے جا تنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ الزام تراشی کی ممانعت کی گئی ہے۔

– اطاعت گزاری کا حکم:

عورتوں کو اپنے مردوں کی اطاعت کرنی چاہیے اور مردوں کو اطاعت کے بعد بے جا بہانے تلاش کر کے تنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

– خاوند کے مال میں اسراف کی ممانعت:

عورتوں کے فرائض یہ بھی ہیں کہ وہ خاوند کے مال کو بے جا اسراف کر کے بر باد نہ کریں۔

سوال 4: انسانی مساوات پر ایک جامع نوٹ لکھیں۔

جواب:

مساوات کے لغوی معنی:

مساوات عربی زبان کے لفظ سوئی سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی برابری، عدل، توازن اور انصاف کے ہیں۔

-1 مساوات کے اصطلاحی معنی: 

اسلامی اصطلاح میں مساوات سے مراد یہ سوچ رکھنا کہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ سب آدم کی اولاد ہیں، سب کے حقوق برابر ہیں۔ جنس، قومیت ، رنگ، نسل، وطن، زبان ، خاندان اور قبیلے کی بنیاد پر کوئی شخص کسی سے نہ تو بر تر ہے اور نہ ہی کم تر ، بلکہ بزرگی کا معیار نیکی اور تقویٰ پر ہے۔

2 – مساوات کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:

قرآن حکیم میں جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ سب انسان برابر ہیں ، اللہ کے ہاں برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے : يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْتُكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ

(سورة الحجرات: 13)

ترجمہ : ” ( اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبیلے بنا دیے تاکہ تم آپس کی پہچان کر

سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے “۔

– مساوات کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ سے مساوات کا درس ملتا ہے۔ اس سلسلے میں 

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان مبارک ہے :

ترجمہ : ” تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے ( پیدا کیے گئے )”۔

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

ترجمہ : “اے لوگو ! تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہی ہے پس کوئی فضیلت نہیں عربی کو عجمی پر ، عجمی کو عربی ( صحیح بخاری)

پر ، سُرخ کو کالے پر ، کالے کو سُرخ پر سوائے تقوی کے “۔

3- اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے مساوات کی مثالیں (مساوات کی اقسام):

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں مساوات کی کیا اہمیت تھی۔ چند مثالوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مساوات کا عملی نمونہ تھے۔

1 مجلسی مساوات :

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اپنے بیٹھنے کے لئے الگ چبوترا نہیں بنوارکھا تھا بلکہ سب کے ساتھ عام سی چٹائی پر بیٹھتے تھے۔ 2- آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے الگ سے کوئی لباس نہیں بنوارکھا تھا۔ جو لباس پہن رکھا ہو تا اسی میں وفود سے ملتے ۔

قانونی مساوات:

قبیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت چوری کے مقدمہ میں لائی گئی۔ آپ نے اُس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اسامہ بن زید (رضی اللہ ) جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہایت محبت رکھتے تھے ، لوگوں نے ان کو سفارشی بنا کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسامہ ! کیا تم حدود خداوندی میں سفارش

کرتے ہو ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا : ” تم سے پہلے کی امتیں اس لیے برباد ہو گئیں جب کوئی معزز آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔ خدا کی قسم ! اس کی جگہ اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ (رضی اللہ ) بھی چوری کرتی تو میں اُس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ “

– معاشرتی مساوات:

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی مجلس مبارک میں بالخصوص نماز کے لئے امیر و غریب، آقا و غلام ، عربی و عجمی، گورے وکالے کی کوئی تفریق نہ تھی.

– معاشی مساوات:

معاشرے کے تمام افراد کو ضروریات زندگی کے حصول کے لیے یکساں حقوق اور سہولیات حاصل ہوں مثلا روٹی، کپڑا اور مکان جیسی ضروریات کے حصول کے لیے ہر ایک کو یکساں مواقع حاصل ہوں،

– مسجد مساوات کی عملی تربیت گاہ:

مسجد ر ، مسلمانوں کے ۔ لئے مساوات کی ایک عملی تربیت گاہ ہے اور نماز مساوات کا بہترین مظہر ہے۔ خواہ امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا۔ سب ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔

بقول علامہ اقبال

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

– امتیازات کا خاتمہ :

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے خاندانی اور قبائلی فخر کو مٹادیا۔ ذات پات اور رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو ختم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک سلمان فارسی رضی اللہ ، بلال حبشی رضی اللہ ، اور صہیب رومی کی قدر و منزلت قریش کے معززین سے کم نہ تھی۔

– اسوہ حسنہ سے مساوات کی عملی مثالیں:

مساوات کا عملی مظاہرہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اپنی پھو پھی زاد حضرت زینب (رضی اللہ ) کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید (رضی اللہ ) بن حارث سے کر دی۔ مسجد قباء اور مسجد نبوی کی تعمیر کرتے وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے صحابہ کرام (رضی اللہ ) کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے عام مسلمانوں کے ساتھ خندق کھودنے کا کام کیا۔

سوال 5: وراثت اور قرض کے بارے میں خطبہ حجتہ الوداع کی روشنی میں نوٹ لکھیں۔

جواب: 

وراثت کی تعریف:

وراثت سے مراد وہ مال و متاع ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں کماتا ہے اور مرنے کے بعد اپنے ورثاء کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔

وراثت سے متعلق خطبہ حجۃ الوداع میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان :

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا: لوگو ! خدا نے میراث میں ہر وارث کا جداگانہ حصہ مقرر کر دیا ہے ، اس لیے اب وارث کے حق میں (ایک تہائی سے زائد میں ) کوئی وصیت جائز نہیں۔

احادیث مبارکہ میں میت کے مال کے چار حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔

1- کفن و دفن کا انتظام

2- ادائے قرض

3 – وصیت

4- وراثت

پہلے تین حقوق کی ادائیگی کے بعد بقیہ سارا مال شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق وراثین میں تقسیم کر دیا جائے۔ وارثوں کو ان کا حق نہ دینا نا جائز و حرام ہے ، اگر دنیا میں نہیں دیا تو آخرت میں دینا پڑے گا۔

میراث تقسیم نہ کرنا ظلم کے مترادف:

میراث تقسیم نہ کرنے کے نتیجے میں انسان تین طرح سے ظلم کا ارتکاب کرتا ہے۔

1- پہلا ظلم یہ ہے کہ یہ وراثت اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے لیے ایک انعام ہوتا ہے جو وارثوں کو بلا مشقت اور بغیر محنت کے حاصل ہو جاتا ہے۔ لہذا وارثوں پر یہ فرض ہے کہ اس کے حق داروں تک اُن کا حق پہنچادیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو یہ خیانت ہے اور خیانت ظلم عظیم ہے۔

2- دوسرا ظلم یہ کہ یہ وراثت ہمارے بھائی کا حق تھا جو ہم نے مار لیا۔ اس لئے جب والد کا انتقال ہو جاتا ہے تو سارے بہن بھائی والد کے مال میں شریک ہو جاتے ہیں اور مرنے والے کی بیوی بھی اس میں حصہ دار بن جاتی ہے۔ جب ہم وہ مال دبا کر بیٹھ گئے اور ان کا حق مار لیا تو ظاہر ہے کہ دوسرے کا حق مارنا بھی ظلم ہے۔

3- تیسر ا ظلم ہے ورثاء کو حق نہ دینے کا، یہ ظلم کئی پشتوں تک چلتا ہے۔ اس لیے کہ جب تقسیم کرنے کارواج ہی نہیں ہے اور والد کے مرنے کے بعد بیٹوں نے میراث تقسیم نہیں کی اور بیٹوں کے مرنے کے بعد پوتوں نے وراثت تقسیم نہیں کی اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے چلتارہتا ہے تو اس کے نتیجے میں سار او بال پہلے نمبر کے پسماندگان پر آئے گا جنہوں نے اپنے والد کی میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کی۔

مرنے کے فوراً بعد تقسیم وراثت :

جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے اپنا خوف اور آخرت کی کامیابی کی فکر پیدا کی ہے، وہ سب سے پہلے مرنے والے کی میراث کی تقسیم کا اہتمام کرتے ہیں اور شریعت کا حکم بھی یہی ہے۔ میراث کی تقسیم میں جتنی دیر ہو گی اتنی ہی اس میں الجھنیں اور دشواریاں پیدا ہوں گی جس کے نتیجے میں تقسیم میراث کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔

خطبہ حجتہ الوداع کی روشنی میں ادائیگی قرض کی اہمیت:

اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجر و ثواب ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا و آخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے، لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دنیاوی فائدے کے لئے کوئی شرط نہ لگائے۔ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کرنی چاہیے جو اللہ تعالی نے سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲ میں بیان کیے ہیں۔ اس آیت میں قرض کے احکام ذکر کیے گئے ہیں، ان احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔

قرض کے لین دین کے احکامات قرآن مجید کی روشنی میں :

ان احکام میں سے تین اہم حکم حسب ذیل ہیں :

1- اگر کسی شخص کو قرض دیا جائے تو اس کو تحریری شکل میں لایا جائے، خواہ فرض کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو۔

2 قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کر لی جائے۔

3- دو گواہ بھی مقرر کر لیے جائیں۔

قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کر کے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کے اللہ تعالی کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالی اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

ادائیگی قرض کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

1 – رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے ) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کر دی جائے۔ (ترمذی)

2 – رسول اللہ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازے پر روک دیا گیا ہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو اللہ تعالی کے عذاب کی طرف جانے دو اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کر کے ) عذاب سے بچالو۔   (رواه الحاکم)

سوال 6: “ہمسائے کے حقوق ” کے بارے میں کیا تا کید فرمائی گئی ہے ؟ جامع نوٹ لکھیے۔

جواب: ہمسائیگی کو عربی میں ” جوار ” کہا جاتا ہے اور پڑوسی کو ” جار ” کہتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کا کوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو اپنے ہمسایہ یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالی اور اس کے نبی نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت ، خوشگوار رہن سہن اور بود و باش کے لئے بھی صرف ترغیب نہیں کی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے تقریباً ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمسائیگی کا حق صرف اپنے دائیں بائیں بسنے والے پڑوسی ہی نہیں بلکہ اس کی وسعت اور پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں ہمسایوں کی اقسام:

قرآن کریم کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمسایوں کے حقوق میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل فرمایا :

وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ ( سورة النساء : ۳۶)

رشته دار همسایہ کے ساتھ اور غیر رشتہ دار سے اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ “۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمسائے تین قسم کے ہوتے ہیں :

-1ایسے لوگ جو ہمسایہ ہونے کے ساتھ رشتہ دار بھی ہوں۔

-2 ایسے لوگ جو قرب و جوار میں رہتے ہوں لیکن رشتہ دار نہیں ہیں۔

-3 وہ لوگ جو ہم نشین اور دوست ہوں اور ایسا شخص جس کے ہمسفر ہونے کا موقع ملے۔

 ہمسایوں کے حقوق کی اہمیت احادیث کی روشنی میں :

اسلام نے صرف مسلمان ہمسایہ کے ساتھ ہی نیک سلوک کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلم ہمسایہ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اسس لسلے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ” غیر مسلم ہمسایہ کا ایک حق ہے ، مسلمان ہمسایہ کے دو حق اور مسلمان رشتہ دار اور ہمسایہ کے تعین حق ہیں “۔ اللہ تعالی نے ایسے ہمسایوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا جو ہمسایہ کی ضرورت کے وقت معمولی ضرورت کی چیز اپنے ہمسایہ کو نہ دیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

” اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم علم کون مومن نہیں ہے؟ فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ رہے “۔  ( متفق عليه )

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

” جبرائیل علیہ السلام مجھ کو پڑوسی کے ساتھ بار بار اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ شاید اللہ تعالی ہمسائے کو وراثت میں شریک کر دیں “۔

اسی طرح  کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے عرض کیا کہ فلاں عورت نفلی نمازیں بہت پڑھتی ہے اور نفلی روزے بہت رکھتی ہے اور صدقہ دیتی ہے۔ اس کے لیے وہ مشہور ہے، لیکن اپنی بد زبانی سے پڑوسیوں کو آزردہ (ناراض) کرتی ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ” وہ جہنم میں جائے گی۔ پھر اس طرح ایک روایت اور نقل کی جاتی ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی اہمیت اور واضح ہو جائے گی۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ فلاں عورت نفلی روزے کم رکھتی ہے اور نفلی نمازیں بہت کم پڑھتی ہے اور پنیر کے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی ، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ” یہ جنت میں جائے گی”۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا:

جن آدمیوں کا مقدمہ سب سے پہلے بارگاہ رب العزت میں پیش ہو گا وہ دو پڑوسی ہونگے “۔

ہمسایوں کے حقوق احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

اچھا سلوک:

پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنا ضروری ہے کسی طرح کی زیادتی ان کے ساتھ جائز نہیں۔ حضور ملی با اینیم کا ارشاد ہے : (بخاری)

“جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے”۔

اعانت ضرورت کے وقت ہمسایہ کی مدد کر نافرض ہے اور بخل سے ایسے موقع پر کام لینا جائز نہیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اگر ہمسایہ تجھ سے قرض مانگے تو اسے قرض دے ، اگر تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کر اور اگر اس کی کوئی ضرورت ہو تو اسے پورا کر “۔

اگر ہمسایہ کے ہاں فاقہ ہے تو خود کھا لینا جائز نہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

“وہ شخص مومن کامل نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا ہمسایہ بھو کار ہے “۔

مزاج پرسی:

اگر ہمسایہ بیمار ہے تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی ضروری ہے اور جس طرح کی مدد کی اسے ضرورت ہو، مدد دینی چاہیے۔

عزت و آبرو کی حفاظت:

ہمسایوں کو ایک دوسرے کی عزت کرناضروری ہے۔ پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے والا دس گناہ عذاب کا مستحق ہے۔ اسی طرح چوری جو حرام ہے مگر ہمسایہ کے گھر چوری دس گھروں کی چوری کرنے سے بدتر ہے۔ (بخاری)

تحفہ بھیجنا:

ہمسایوں کو تحفے بھیجنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سے باہمی پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات میں استواری اور خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہمسایہ کی بھیجی ہوئی چیز کو حقیر نہ سمجھو خواہ وہ بہت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے فرمایا کہ کوئی پھل خریدے تو اپنے ہمسایہ کے گھر بھیجے اور اگر اس کی استطاعت نہیں ہے تو اس کا اظہار نہ کرے۔ ” یعنی اس کے چھلکے اور فضلہ باہر کی طرف اس طرح

نہ پھینکے کہ ہمسایہ کے بچے اسے دیکھ کر للچائیں۔

جنازہ میں شرکت:

اگر ہمسایہ کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت اور اس سلسلے میں ممکنہ تعاون ضروری ہے۔

                                                   موضوعاتی مطالعه

                                باب نہم حقوق العباد ، انسانی رشتوں اور تعلقات سے متعلق 

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت اور ارشادات سوالات اور ان کے مختصر جوابات

س 1: آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ نے انسان کو کیا تحفظ فراہم کیا ؟

ج: آنحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ اور ارشادات گرامی نے انسانی زندگی، عزت و ناموس اور مال و اسباب کو تحفظ فراہم کیا۔

س 2: ہمسائے کے حقوق کے بارے میں آپ نے خاص طور پر کیا تا کید فرمائی؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :

جبرائیل مجھے بار بار پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالی ہمسائے کو وراثت میں شریک نہ کر دے۔

س 3 بیماروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے کیا ارشاد فرمایا ؟

ج: آپ کی کیا کہ ہم نے بیماروں کی عیادت ، دیکھ بھال اور خدمت کرنے کا حکم دیا۔

س 4: آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدور کے حقوق کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ؟

 آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے۔

س 5:آپ میں ہم نے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی مساوات کا درس کس طرح دیا ؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں

بانٹ دیا تا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو ، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا خدا کی نظر میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ لہذا کسی عربی کو عجمی پر اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے “۔

س 6: مقتل عمد اور قتل غیر عمد سے کیا مراد ہے ؟

ج: قتل عمد سے مراد جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کرنا جبکہ قتل غیر عمد وہ ہے جس میں لاٹھی یا پتھر لگنے سے کوئی شخص ہلاک ہو جائے جبکہ مارنے والے کا ارادہ قتل نہ ہو۔

س 7: قتل عمد اور قتل غیر عمد کا کیا بدلہ ہے ؟

ج: قتل عمد کا قصاص دیا جائے گا (یعنی قتل کے بدلے قتل ) جبکہ قتل غیر عمد کی صورت میں ایک سو اونٹ دیت مقرر ہے۔

س 8 قصاص اور دیت سے کیا مراد ہے ؟

ج: قصاص سے مراد قتل کا بدلہ قتل جب کہ دیت سے مراد مقتول کے وارثوں کو قتل کا (خون بہا) ادا کرنا ہے، جو سو اونٹ مقرر کر دیا گیا ہے۔ فی زمانہ اونٹوں کی قیمت کے برابر نقدر قم بھی ادا کی جاسکتی ہے۔

س 9 نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حق وراثت کے بارے میں کیا فرمایا؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! خدا نے میراث میں ہر وارث کا جداگانہ حصہ مقرر کر دیا ہے۔ اس لیے اب وارث کے حق میں ایک تہائی سے زیادہ) وصیت جائز نہیں۔

س 10: آنحضور ملی ہم نے مجرم کی سزا کے بارے میں کیا فرمایا؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجرم کی سزا کے بارے میں فرمایا: دیکھو مجرم اپنے جرم کا خود ہی ذمہ دار ہے۔ نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔

س 11: آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شوہر کے بیوی پر کیا حقوق بیان فرمائے ؟

ج:آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیویوں پر تمہارا حق اتنا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کسی سے تعلقات قائم نہ کریں۔ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھروں میں داخل نہ ہونے دیں جنہیں تم نا پسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اللہ نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ سر زنش کرو اور اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ایسی مار مارو کہ نمودار نہ ہو۔

س 12 آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں کیا فرمایا؟ یا عورتوں کے حقوق کے بارے میں  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا فرمایا؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں فرمایا: تم پر واجب ہے کہ انہیں اچھا کھلا ؤ انہیں رواج کے مطابق اچھا پہناؤ عورتوں کے معاملے میں فراخ دلی سے کام لو کیوں کہ در حقیقت وہ ایک طرح سے تمہارے پابند ہیں وہ تمہاری املاک نہیں تم نے انہیں خدا کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے۔ خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان سے نیک سلوک کرو۔

س :13: آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا: لوگو ! میری بات سنو اور سمجھو ! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے اس کی رضا اور رغبت کے بغیر کچھ حاصل کرے۔ اپنے نفس پر اور دوسروں پر زیادتی نہ کرو۔

س 14 غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا فرمایا؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اپنے غلاموں کا خیال رکھو جو تم کھاؤ اس میں سے ان کو کھلاؤ جو تم پہنواسی میں سے ان کو پہناؤ، اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو اللہ کے بندو! انہیں فروخت کر دو اور انہیں سزا نہ دو”۔

س :15: حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے یتیم کے حقوق کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کی ضروریات پورا کرنے کا حکم دیا۔ 

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزید فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے (انگلیوں کے اشارے سے ) جیسے یہ دونوں انگلیاں ایک ساتھ ہیں۔

س 16 حضور اکرم ا ہم نے نسب کی حفاظت سے متعلق کیا ارشاد فرمایا ؟

ج: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ” جان لو کہ لڑکا اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر پیدا ہوا اور جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا سنگساری ہے۔

س 17: حضور اکرم لی ہم نے جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

ج: حضور اکرم یا ہم نے جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ فرمایا اور ان پر کسی طرح کی سختی نہیں کی۔

س 18 خطبہ حجۃ الوداع میں امانت کے بارے میں کیا فرمایا گیا ہے ؟

ج: خطبہ حجۃ الوداع میں امانت کے بارے میں حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا ارشاد ہے : ” اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچادے”۔

س 19: قتل عمد کی کیا سزا مقر ر ہے ؟

ج: قتل عمد کی سزا قصاص (یعنی قتل کے بدلے قتل ) مقرر ہے۔

س 20 : بیمار کے دو حقوق تحریر ہے۔

ج:

1 – بیمار کی تیمار داری کرنا۔

2 – اللہ تعالی سے اس کی شفا کی دعا کرنا۔

س: 21 رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے خطبہ حجۃ الوداع میں ضامن بننے کی کیا شرط مقرر کی ہے؟

ج: رسول اللہ علیم نے خطبہ حجتہ الوداع میں ضامن بنے کی یہ شرط مقرر کی ہے کہ جو کوئی کسی کا ضامن بنے تو اُسے تاوان ادا کر نا چاہیے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks